What is CoronaVirus? کورونا وائیرس کیا ہے؟
کورونا
وائرس کیا ہے؟ چین کے پر اسرار نئے کورونا وائرس نے ملک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق
اب تک کم از کم 440 افراد کو متاثر
کیا ہے اور سترہ افراد اس کی وجہ سے لققمہ
اجل بن چکے ہیں۔ تاہم وبائی امراض کے ماہرین کا ماننا ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد
چار ہزار سے دس ہزار تک ہو سکتی ہے۔
،
عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے ایک میٹنگ کال کی ہے اور ادارہ اس وبا کو بین الاقوامی ایمرجینسی
ڈیکلیئر کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا
ہے۔
ناظرین کرونا وائرس ایک وائرس کا نام نہیں بلکہ یہ وائرسز کی فیملی کا نام ہے۔ اس وایرس کو ساٹھ کی دہائی میں دریافت کیا گیا تھا۔ یہ وائیرس
بھی بہت سے دیگر وائرسز جیسا کہ سوائن
فلو، برڈ فلو ، کانگو وائرس اورایچ آئی وی کی طرح جانوروں سے انسانوں میں منتقل
ہوا ہے۔ ناظرین یہ وائیرس سور، اونٹ ، گھر میں پالے جانے والے جانوروں جیسا کی
مختلف پرندے، کتے اور بلی میں پایا جاتا ہے۔ وقتا فوققتا وائرس میں جینیاتی تبدیلی یا میوٹیشن نمودار ہو جاتی ہے اوریہ جانوروں سے انسانوں
میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے
تو پھر یہ تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتا ہے۔ سائنس دان ان وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کر
رہے ہیں جن کی وجہ سے وائیرس میں جینیاتی
تبدیلی رونما ہوتی ہے۔
ناطرین دریافت ہونے کے بعد سے اب تک ایسا سات مرتبہ ہوا ہے کہ اس
فیملی کا کوئی وایرس جانوروں سے انسانوں میں آگیا ہو۔
عام طور پر اس وائرس کا پتہ نہیں چلتا
کیونکہ اس وائیرس سے انفیکٹڈ مریض کی
علامات کامن کولڈ بیماری سے ملتی جلتی ہیں جیسا کہ نزلہ، گلے کی خراش اور سر
درد۔ لیکن حالیہ پھیلاوٗ سے قبل بھی دو
مرتبہ یہ وائرس تباہ کن علامات کے ساتھ انسانوں
پر حملہ آور ہوچکا ہے۔
پہلی مرتبہ
2002 main SARS yani Svere Acute Respiratory
Syndrom
کی شکل میں جس نے آٹھ ہزار سے زائدافراد کو متاثر کیا جبکہ۷۷۵ افراد اس کی
وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔سارز کا
حملہ بھی چین میں شروع ہوا اور شمالی اور جنوبی امریکہ اور یورپ کے درجن سے زائد
ممالک میں پھیل گیا۔ اس سے قبل کہ یہ مزید تباہی پھیلاتا اس وائرس پر2003 میں قابو پا لیا گیا۔
دوسری مرتبہ یہ وائرس2012 میں
MERS yani Middle eastern respiratory syndrome
کی صورت میں انسانوں
میں نمودار ہوا اور اڑھائی ہزار لوگوں کو متاثر کیا جبکہ آٹھ سو ساٹھ
افراد کی موت کا سبب بنا۔ مشرق وسطی میں
ظاہر ہونے والا کرونا وائرس اس مرتبہ یہ اونٹ سے انسان میں داخل ہوا تھا اور اس کے ابتدائی مریضوں میں اونٹوں کی
دیکھ بھال کرنے والے شامل تھے۔
ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سے سب سے پہلے وہی لوگ متاثر
ہوتے ہیں جو جانوروں کے قریب ہوتے ہیں۔ تاہم ایک مرتبہ یہ وائرس انسانوں میں منتقل
ہو جائے پھر ایک انسان سے دوسرے انسان میں بآسانی جا سکتا ہے۔جب متاثرہ مریض
کھانسی کرتا ہے یا چھیکتا ہے تو وہ وارس کو فضا میں پھیلا دیتا ہے۔ اور وائرس سانس
کے زریعے دوسرے انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ مریض کے زیر
استعمال چیزوں کو استعمال کرنے سے بھی یہ وائیرس پھیل سکتا ہے۔ اور اگرکوئی سپر سپریڈر اس سے متاثر ہو جائے تو
پھر یہ ایک انسان سے کئی انسانوں میں جا سکتا ہے ہے جیسا کہ 2012 میں ہوا جب جنوبی کوریا کا ایک شہری مشرق وسطیٰ سے وائرس سے انفیکٹ ہو کر اپنے ملک گیا اور لگ
بھگ دو سو لوگوں میں
Middle Eastern Respiratory Syndrom
کورونا وائرس پھیلایا جن میں سے اڑھتیس افراد جان کی بازی ہار گئے۔
جب انسانوں میں یہ وائرس
پھیل جاتا ہے تو سب سے زیادہ خطرہ مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹرز
اور پیرامیڈیکل سٹاف کو ہوتا ہے۔ وائرس سے متاثرہ مریض کو جو علامات ظاہر ہوتی ہیں
وہ کسی بھی سانس کی بیماری کی سے ملتی
جلتی ہو سکتی ہیں۔ جیسا کی نزلہ، گلے کی خراش، بخار، جسم میں درد اور تھکاوٹ
محسوس ہونا اور سر میں درد ہونا ۔
آپ
اپنے آپ کواس وائرس سے کیسے بچائیں؟
فی
الحال کورونا وائرس کے انفیکشن سے بچانے
کے لئے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ تاہم آپ ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے انفکشن کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔
اپنے
ہاتھوں کو دن میں کئی بار صابن اور پانی سے کم از کم 20 سیکنڈ تک دھوئیں
گندے
ہاتھوں سے اپنی آنکھوں ، ناک ، یا منہ کو ہر گز نہ چھوئیں اور وائرس سے
متاثرہ
لوگوں کے قریب جانے سے گریز کریں۔
لیکن اگر آپ خدا نخواستہ اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں تو
اسے پھیلنے سے روکیں اور دوسروں کو اس سے بچائیں۔
آپ کو چاہئیے کہ آپ گھر
ہی رہیں اوردوسروں کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کریں
کھانسی
یا چھینک آنے پر اپنے منہ اور ناک کو ٹشو سے ڈھانپیں ، پھر ٹشو کو ردی کی ٹوکری میں
پھینک دیں اور اپنے ہاتھ دھوئیں۔
ناظرین
کورونہ وائرس سے ہونے والی بیماریوں کا کوئی خاص علاج
نہیں ہےاور زیادہ تر لوگ اپنی قوت مدافعت کی وجہ سے خود ہی
ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ تاہم ،مریض اپنی علامات
کو دور کرنے کے لئے بخار اور درد کی دوا
کھا سکتے ہیں۔ مریض کو چاہئے کہ وہ
گرم پانی سے نہائے۔گلے کی سوزش اور کھانسی کو کم کرنے کے لئے کمرے میں ہیمڈیفائر
استعمال کریں۔اس کے علاوہ مشروبات کا استعمال زیادہ کرے اور آرام کرے۔
ناظرین
موجودہ کرونہ وائرارس نے چین کے شہر وو
ہان میں دسمبر 2019 میں سر اٹھایاہے۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ وائیرس اس مرتبہ سانپ
سے انسان میں گیا ہے۔ اگرچہ
بہت سارے کیسز چین تک ہی محدود ہیں ، لیکن یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اب تک امریکہ ،
تھائی لینڈ ، جنوبی کوریا ، تائیوان ، مکاؤ ، جاپان اور فلپائن میں کورونا وائرس
کے کیسز پائے گئے ہیں۔
چینی حکام نے وہ ہان کو لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے
علاقے میں رہیں اور باہر کے لوگوں کو ووہان جانے سے روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ ووہان میں اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
دنیا بھر میں اس وایئرس کے بڑھتے ہوے کیسز کی وجہ سے
مسافروں کو ائر پورٹس پر نئی پاپندیوں کا
سامنا ہے۔ لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ پر
ایشاٗ سے آئے مسافروں کے لئے الگ ایریا متعن کیا گیا ہے جبکہ بھارت میں مسافروں
کی تھرمل سکیننگ کی جا رہی ہے۔آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی اپنے ائر پورٹس پر
سکریننگ سخت کئے ھوے ہیں۔ اس کے علاو ہ امریکی حکام بھی ہائی الرٹ ہیں اور وائرس
سے متاثرہ ممالک سے آئے مسافروں کو ٹیسٹ کرنے کے بعد امریکہ میں داخلے کی اجازت
دی جا رہی ہے۔
ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کیا کروناوائرس ہی ڈیزیز ایکس ہو سکتی ہے جس کی پیش گوئی بہت سے سائنسدان کرتے آئے ہیں
کہ ایک ایسی بیماری آنے والی ہے جس سے انسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ ختم ہوجائیگا ؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ اور بعض
وبائی امراض کے ماہرین کے مطابق یہ کہنا حماقت ہے۔ اور کرونا وائرس اتنا خطرناک
نہیں کہ اس کو روکا نہ جا سکے۔ جیسا کہ چین میں کئی ایک مریض صحتیاب ہو چکے ہیں ۔
صحت کے عالمی ادارے دبلیو ایچ او کے مطابق ڈیزیز ایکس ایک
ایسی بیماری ہے جس کے بارے میں ابھی پتا
نہیں اور یہ کبھی بھی وبا کی صورت میں سر اٹھا سکتی ہے۔ اس کی کوئی ویکسین نہیں
اور کوئی طریقہ علاج واضح نہیں ہے ۔ ادارے کے مطابق فلحال ایسی کوئی بیماری نہیں۔ اور ڈیزیز ایکس
کو یہ فرضی سا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ ہم ایسی کسی بیماری سے نبرد آزما ہونے کے
لئے ہر دم تیار رہیں۔عالمی ادارہ صحت اس سلسلہ میں مختلف وائرسز پر تحقیق کر رہا ہے جن میں کانگو اور زیکا وائرس بھی
شامل ہیں۔
اگرچہ
یہ امکان ظاہر نہیں کیا جاتا کہ ہے کہ یہ
وبا پھیل کر عالمی وبا میں بن جائے گی لیکن پھر بھی ماہرین اس بارے میں کافی محتاط
ہیں۔
اس
دعا کے ساتھ کہ اللہ آپ کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے ، ہم آپ سے اجات چاہتے
ہیں۔ اللہ حافظ۔
Comments
Post a Comment